نئی دہلی 4 ڈسمبر (ایس او نیوز) دہلی ہائی کورٹ نے ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے قومی سکریٹری اور انسانی حقوق کے کارکن ندیم خان کو 6 دسمبر تک گرفتاری سے عبوری تحفظ فراہم کیا ہے۔ ان پر دہلی پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر میں "نفرت انگیزی اور تشدد کو فروغ دینے" کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
جسٹس جسمیت سنگھ نے 3 دسمبر کو یہ عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی ہم آہنگی "اتنی نازک نہیں ہے" اور عام آدمی "حقائق کو سمجھنے کے لیے کافی ذہین" ہے۔ عدالت نے پولیس کو ندیم خان کی گرفتاری سے روک دیا اور انہیں ہدایت دی کہ وہ 4 دسمبر کو تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوں اور تفتیش میں تعاون کریں۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ندیم خان تفتیشی افسر کی اجازت کے بغیر دہلی نہ چھوڑیں۔
الزامات اور ایف آئی آر
ایف آئی آر میں الزام ہے کہ اے پی سی آر کے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو بعنوان "ریکارڈز آف ہندوستان اِن مودی سرکار" اپ لوڈ کی گئی تھی، جس میں مسلمانوں کو مظلوم اور حکمراں جماعت کے لیڈروں کو نفرت پھیلانے والا ظاہر کیا گیا۔ دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو کے مواد سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور خان اس ویڈیو میں نظر آنے والے مقرر ہیں۔
ایف آئی آر کے بعد 29 نومبر کو دہلی پولیس نے اے پی سی آر کے دفتر پر چھاپہ مارا اور 30 نومبر کو بنگلورو میں ندیم خان کے بھائی کی رہائش گاہ پر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ ان کارروائیوں کو سوشل میڈیا پر ہندوتوا حامیوں کی پوسٹس کے زیر اثر سمجھا جا رہا ہے۔
عدالت کے مشاہدات:
جسٹس جسمیت سنگھ نے دورانِ سماعت کہا، “ہمارے ملک کی ہم آہنگی اتنی نازک نہیں کہ محض ایک نمائش یا کسی کے بولنے سے متاثر ہو جائے۔ عوام کو ذہین سمجھیں، عام آدمی اتنا کمزور نہیں ہے۔” یہ ریمارکس دہلی پولیس کے اس دعوے کے جواب میں دیے گئے کہ خان کی سرگرمیاں قومی امن کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
قانونی دفاع اور اگلی کارروائی:
ندیم خان کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت میں دلیل دی کہ ایف آئی آر میں کوئی قابلِ گرفت جرم ظاہر نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں صرف ایک نظریہ پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد تشدد کو ہوا دینا نہیں۔ ندیم خان نے دہلی پولیس کی ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی ہے، جس پر عدالت نے پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔
یہ معاملہ 6 دسمبر کو دوبارہ سماعت کے لیے پیش ہوگا۔ تب تک عدالت کی طرف سے دیا گیا عبوری تحفظ برقرار رہے گا۔اس دوران، خان کی قانونی ٹیم ناکافی ثبوتوں اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے ان کے عزم کو بنیاد بنا کر ایف آئی آر کو خارج کرنے کے لیے دلائل جاری رکھے گی۔